کراچی:
سندھ اسمبلی نے نئے مالی سال کے لیے 34 کھرب 50 ارب روپے کا بجٹ منظور کرلیا، ساتھ ہی 156.069 ارب روپے کے ضمنی بجٹ کی بھی منظوری دے دی، بجٹ کا حجم گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 12.9 فیصد زیادہ ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ میں چھ محصولات کے خاتمے یا واپسی، خصوصاً پروفیشنل ٹیکس کے خاتمے سے عوام کو براہ راست فائدہ ہوگا، جس سے تنخواہ دار طبقے اور چھوٹے کاروباریوں کو 5 ارب روپے کا ریلیف ملے گا، بجٹ میں سماجی تحفظ، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، معاشی اصلاحات اور نچلے طبقے کے لیے بھرپور ریلیف اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔
اسمبلی نے صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے کیے جانے والے اخراجات پر بحث کی اور مالی سال 2024-25 کے لیے ضمنی گرانٹس کی منظوری دی۔ اسمبلی میں 188 مطالباتِ زر پیش کیے گئے، جن پر اپوزیشن کی جانب سے 2002 کٹوتی کی تحاریک پیش کی گئیں، جو اکثریتی ووٹ سے مسترد کردی گئیں تاہم سندھ اسمبلی میں کٹوتی کی ایک تحریک حکومت و اپوزیشن ارکان نے متفہ طورپر جو اسپیشل جوڈیشل الاونس نہ دینے سے متعلق تھی اسے منظورکرلیا۔
حکومت سندھ نے عدالتی احکامات پراسپیشل جوڈیشل الاونس کی مد میں آٹھ ارب روپے مختص کئے تھے تاہم اسمبلی نے بجٹ تجاویز کی مخالفت کی۔ مالی سال 2025-26 کے لیے مطالباتِ زر بھی بحث اور رائے شماری کے بعد منظور کرلیے گئے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سندھ فنانس بل اسمبلی میں پیش کیا جس کا مقصد محصولات اور ٹیکسوں کو حقیقت پسندانہ بنانا اور متعلقہ قوانین میں ترامیم کرنا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے ایوان کو بتایا کہ حکومت سندھ کے اصلاحاتی اقدامات میںبلاک چین پر مبنی زمین کے ریکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن، موبائل ایپ کے ذریعے پیدائش کی رجسٹریشن، سندھ کوآپریٹو بینک کے ذریعے کسانوں کو قرضوں تک رسائی، زمین کی ملکیت کی منتقلی کے لیے ون اسٹیپ نظام کا آغاز شامل ہیں۔ملازمین کے نئے ایڈہاک ریلیف الائونس کے لیے 43 ارب روپے، پنشن میں 15 فیصد اضافے کے لیے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے آئندہ مالی سال 2025-26 کے لیے چھ ٹیکسز ختم کرنے کا اعلان کیا جن میں پروفیشنل ٹیکس، تنخواہ دار افراد اور چھوٹے کاروبار پر لاگو پروفیشنل ٹیکس شامل ہے، یہ ٹیکس ختم ہونے سے5 ارب روپے کا ریلیف حاصل ہوگا۔ سندھ میں تفریحی ڈیوٹی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے یہ ٹیکس بھی ختم کردیا گیا۔
حکومت سندھ کے دیگر اہم ریلیف اقدامات میں انتقال، سیلز سرٹیفکیٹ، مصدقہ نقول، سالوینسی اور وراثتی سرٹیفکیٹ کی فیس میں 50 فیصد کمی شامل ہے۔ اسی طرح کمرشل گاڑیوں پر سالانہ ٹیکس کی حد صرف 1,000 روپے مقررکی گئی ہے۔ تفریحی ڈیوٹی، ڈرینیج سیس اور کپاس فیس کو حقیقت پسندانہ کردیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے بتایاکہ بجٹ میں اہم اداروں کے لیے نمایاں گرانٹس مختص کی گئی ہیں، پبلک یونیورسٹیوں کے لیے 42.2 ارب روپے، میڈیکل ایجوکیشن کے لیے 10.4 ارب روپے، خصوصی افراد کے ’’انکلوژیو سٹی‘‘ منصوبے کے لیے 5 ارب روپے، سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی کے لیے 6.6 ارب روپے، سندھ ایمرجنسی ہیلتھ سروسز کے لیے ایمبولینس سروس پر 5.2 ارب روپے شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے ملکی معاشی اشاریوں پر بھی روشنی ڈالی اورکہا کہ مالی سال 2025-26 کے لیے قومی جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد رکھا گیا ہے (گزشتہ سال 2.68 فیصد رہی)مہنگائی کا ہدف 7.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے (اس سال 4.7 فیصد رہی) ایف بی آر کا ہدف 14,131 ارب روپے مقررکیا گیا ہے۔
انہوں نے ایوان کو اخراجات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ہمارے مجموعی اخراجات 3,450 ارب روپے ہیں جن میں تنخواہیں39 فیصد ہیں، کرنٹ ریونیو اخراجات 2,150 ارب روپے (62 فیصد)، ترقیاتی اخراجات 1,018.3 ارب روپے (30 فیصد)، سرمائے کے اخراجات 281.7 ارب روپے، گرانٹس (بلدیاتی و خودمختار ادارے) 29 فیصد، نان سیلری آپریشن و دیکھ بھال 19 فیصد اور پنشنز 13 فیصد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں بجٹ کے مقابلے میں 3.6 فیصد کمی کے باوجود حکومت کو مالی سال 2025-26 میں 3,111.5 ارب روپے کی وصولیوں کی توقع ہے، جو نظرثانی شدہ تخمینے (2,562.7 ارب) سے 21.4 فیصد زیادہ ہے۔ اگلے تین سال میں سندھ کو اوسطاً 12.5 فیصد سالانہ آمدنی میں اضافے کی امید ہے۔ اگر ایف بی آر اپنا 11.7 ٹریلین روپے کا ہدف حاصل کر لیتا ہے تو سندھ کو وفاقی محصولات میں سے تقریباً 269 ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔
انہوں نے ترقیاتی منصوبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ زرعی اور دیہی معاونت بینظیر ہاری کارڈ کے لیے 8 ارب، لائیوسٹاک بریڈنگ کے لیے 1.8 ارب روپے، فارم میکنائزیشن سبسڈی پر سولر ٹیوب ویلز، ڈرِپ ایریگیشن سسٹمز اور سپر سیڈرز کم آمدنی والوں کے لیے رہائش پر 2 ارب روپے، سماجی فلاح سندھ پیپلز سپورٹ پروگرام کے لیے 2 ارب، یتیم و بیواؤں کی امداد کے لیے 20 کروڑ روپے، خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے خواتین زرعی کارکنان اور SMEs کے لیے 50 کروڑ روپے فی منصوبہ مختص کئے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ کے مطابق صحت کا شعبے کے لئے لاڑکانہ میں SIUT سینٹر (4.5 ارب)، SIUT (21 ارب)، NICVD (23 ارب)، PPHI (16.5 ارب)، لاڑکانہ میں نیا اسپتال (10 ارب روپے) مختص کیے ہیں، تعلیم و خصوصی ضروریات کی مد میں اسکول بجٹ، معذور افراد کے وظیفے میں اضافہ، معذور آلات کی تعداد 20,000 سے بڑھا کر 40,000 کردی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈملوٹی ڈی ایچ اے واٹر پائپ لائن کے لیے 10 ارب، حب کینال کے لیے 3.1 ارب روپے رکھے گئے ہیں، گرین انرجی کے لیے 25 ارب، SDGs سے جڑے پبلک ہیلتھ منصوبوں کے لیے 45 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اس بجٹ کو "ذمہ دار، جامع اور مستقبل شناس مالی منصوبہ" قرار دیا جو شمولیتی ترقی، مساوات اور کارکردگی کو فروغ دیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ "یہ بجٹ عوام کو درپیش معاشی مشکلات کا جواب ہے، اور سندھ کی بحالی، مواقع اور سماجی انصاف کی جانب ایک روڈ میپ ہے۔
فنانس بل کی منظوری
ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں فنانس بل پیش کیا گیا، اراکین نے اسے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے فنانس بل کی منظوری پر ایوان کو مبارک باد پیش کی۔
فنانس بل میں پارلیمنٹ و اسمبلی، بلدیاتی نمائندے، جج ٹریبیونل اراکین کی سرکاری خدمات کو سیل ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور اسپیشل اکنامک زون کو سروسز ٹیکس پر چھوٹ دے دی گئی۔ نجی رہائشی اسکیموں میں 10 ہزار مربع فٹ پر مکان بنانے پر ٹیکس چھوٹ ہوگی۔
بل کے مطابق پانچ لاکھ روپے مالیت کی ہیلتھ اور لائف انشورنس پر ٹیکس ادا نہیں کرنا ہوگا، سرکار سے منظور شدہ یونیورسٹیوں کالجز کی تعلیمی تحقیق پر بھی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا، حج اور عمرہ ٹریول آپریٹرز بھی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے، اسٹیٹ بینک، سکیورٹی ایکسچیبنج کمیشن، کمپی ٹیشن کمیشن کی خدمات پر بھی ٹیکس نہیں ہوگا، سکیورٹی سروسز میں گاڑی ٹریکرز، سکیورٹی کیمرے، الارمنگ سسٹم پر 19.5 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔
فنانس بل کے مطابق انٹرنیٹ، ٹیلی فون سروسز، وائی فائی اور براڈ بینڈ کنکشن پر 19.5 فیصد ہوگا، گاڑیوں کے لین دین کرنے والوں پر 3 فیصد ٹیکس ہوگا، ریسٹورنٹس، ہوٹلز، فارم ہاؤسز کی آن لائن ادائیگی اور مشروبات پر 8 فیصد ٹیکس عائد ہوگا، کیب سروسز پر 5 فیصد، رینٹل کار سروس اور مال بردار گاڑیوں کو 8 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، سرکاری عمارتوں کی تعمیر پر 5 فیصد اور عام تعمیرات پر 8 فیصد ہوگا، اسلحہ بردار اور سکیورٹی گارڈز رکھنے پر 8 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، رئیل اسٹیٹ سروسز پر 8 فیصد ، فارن ایکسچینج سروسز پر 3 فیصد ٹیکس ہوگا۔
کال سینٹرز اور ہیلپ لائن سروسز پر 3 فیصد ٹیکس ہوگا، کوچنگ اور ٹریننگ مراکز کو بھی 3 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، 5 لاکھ روپے سالانہ فیس حاصل کرنے والے اسکول اور کالجز کو بھی 3 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، سندھ ہاری کارڈ سے 8ارب روپے جاری ہوں گے، بڑے کاشتکار کو 80 فیصد سبسڈی ملے گی۔
وزیراعلیٰ کی تقریر
وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے فنانس بل منظوری کے بعد ایوان سے خطاب کیا ور بجٹ کی منظوری کی مبارک باد پیش کی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سندھ میں یہاں پر اپوزیشن کے سو فیصد ممبران نے بجٹ بحث میں حصہ لیا، سندھ ہمیشہ سے اوور انکلوژو صوبہ رہا ہے، اس ایوان میں بھی چاروں زبانیں بولنے والے ممبران موجود ہیں، ہمیں صوبے سے محبت ہے، اس دھرتی سے پیار کرنا چاہیے، ہمیں پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے ایک اور بجٹ سندھ اسمبلی نے پاس کیا ہے، قیادت، کابینہ اور اسمبلی ممبرز کا شکرگزار ہوں کہ سب نے حصہ لیا، بلڈوزر نہیں ہوتا لیکن جہاں اکثریت ہوتی وہ بجٹ پاس کروالیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری درخواست ہوگی کہ آئندہ بجٹ میں کٹوتی کی تحاریک کو ڈجٹیلائیز کیا جائے، دوہزار دس سے میرے پاس فنانس کا محکمہ ہے، محکمہ فنانس کے اسٹاف کے لیے پچھلے سال کی طرح اس سال بھی بونس کا اعلان کرتا ہوں، اسمبلی کے اسٹاف کو بھی بونس ملے گا۔