بلوچستان کا آیندہ مالی سال کے لیے1028 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا گیا، ترقیاتی پروگراموں کے لیے 240 ارب روپے، غیرترقیاتی بجٹ 642 ارب روپے تجویز، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ تجویز کیا گیاہے۔
بلوچستان کا مالی سال 2025-26 کا بجٹ صوبے کی سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے۔ حکومت بلوچستان نے حالیہ بجٹ کو عوام دوست اور ترقیاتی قرار دیا ہے، موجودہ بجٹ کا حجم گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔
بجٹ کا ایک بڑا حصہ غیر ترقیاتی اخراجات پر مشتمل ہے، جن میں تنخواہیں، پنشن، انتظامی اخراجات اور دیگر بنیادی اخراجات شامل ہیں۔ صوبے میں جاری ترقیاتی اسکیموں کی ایک بڑی تعداد بتائی گئی ہے، اگرچہ یہ تعداد پرکشش لگتی ہے، مگر اصل سوال ان اسکیموں پر عمل درآمد، نگرانی اور شفافیت کا ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبے ہر بجٹ میں مرکزی توجہ حاصل کرتے ہیں، اور موجودہ بجٹ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ تعلیم میں اضافہ خوش آئند ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وسائل محض عمارتوں اور سامان تک محدود رہیں گے یا اساتذہ کی تربیت، بچوں کے داخلے اور معیارِ تعلیم بہتر بنانے کے لیے بھی استعمال ہوں گے؟ بلوچستان میں تعلیمی نظام طویل عرصے سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد اسکولوں سے باہر ہے، اور موجود اسکولوں میں بھی اساتذہ کی کمی، سہولتوں کی عدم دستیابی اور ناقص انتظامیہ جیسے مسائل درپیش ہیں۔ محض بجٹ بڑھانے سے نتائج بہتر نہیں ہو سکتے جب تک پالیسی، تربیت اور نگرانی کا مربوط نظام قائم نہ کیا جائے۔
صحت کے شعبے میں بھی مالیاتی توجہ دی گئی ہے، لیکن صوبے میں بنیادی صحت کی سہولتیں اب بھی انتہائی ناکافی ہیں۔ دیہی علاقوں میں اکثر اسپتالوں میں ڈاکٹرز دستیاب نہیں ہوتے، اور ادویات و مشینری کی قلت عام ہے۔ حکومت نے نئے اسپتالوں کے قیام کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے، جو بلاشبہ خوش آئند ہے، مگر ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے طویل المدتی وژن، باقاعدہ فنڈنگ اور ماہر عملے کی بھرتی ضروری ہو گی۔ امن و امان کے شعبے میں بھی اس سال خاطر خواہ رقم مختص کی گئی ہے، جوکہ صوبے کی حساس سیکیورٹی صورتحال کے تناظر میں لازمی امر ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، مسلح کارروائیاں اور لاپتہ افراد کے کیسز ایک دیرینہ مسئلہ ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ سیف سٹی منصوبے، فورسز کی استعداد بڑھانے اور جدید آلات فراہم کرنے کے لیے بجٹ مختص کیا گیا ہے، مگر عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو شفاف اور جواب دہ بنانا ہو گا۔ امن و امان کا قیام صرف اسلحے یا آپریشنز کے ذریعے ممکن نہیں، اس کے لیے سماجی انصاف، بنیادی حقوق کی فراہمی اور عوامی شرکت کو یقینی بنانا ہو گا۔بجٹ میں بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کو قومی سطح پر بھی اہمیت دی گئی ہے۔ جن مقامی دیہاتوں اور شہروں کے درمیان رابطوں کے ساتھ ساتھ سی پیک کے تحت مختلف انٹرکنیکٹویٹی منصوبے بھی شامل ہیں۔
یہ تمام منصوبے خطے کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔گوادر پورٹ، فری زون اور ٹریڈ راہداری جیسے منصوبوں کو موثر انداز میں چلانے کے لیے مقامی سطح پر بھی صلاحیتوں کی تعمیر، تربیت اور وسائل کی تقسیم درکار ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی اس بجٹ میں اقدامات کی اشد ضرورت تھی، جو نسبتاً کم نظر آتے ہیں۔ بلوچستان پانی کی شدید قلت، خشک سالی، شدید گرمی اور زمینی کٹاؤ جیسے مسائل سے دوچار ہے۔
اس ضمن میں واٹر مینجمنٹ، سولر انرجی، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور پائیدار زراعت کے منصوبے ناگزیر ہیں۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بلوچستان کا بجٹ 2025-26 اعداد و شمار کے اعتبار سے متوازن، عوام دوست اور ترقیاتی مقاصد کے لیے موزوں دکھائی دیتا ہے، اگر صوبائی حکومت اس بجٹ کو محض ایک رسمی دستاویزکے بجائے ایک ترقیاتی ایجنڈے کے طور پر لے اور اس پر خلوص نیت سے عمل کرے، تو بلوچستان کی پسماندگی کو کم کرنے اور عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔