لاہور:
پنجاب حکومت کی جانب سے 5300 ارب روپے مالیت کا بجٹ پیش کیا جارہا ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، بجٹ کے دوران پی ٹی آئی کے اراکین کا شدید احتجاج جاری ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا جس میں وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمان بجٹ پیش کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز ایوان میں موجود ہیں۔ بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں شور شرابہ جاری ہے۔
اپوزیشن اراکین نے اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا اور حکومت پنجاب کے خلاف نعرے بھی بھی لگائے۔
بجٹ پنجاب کابینہ سے مںظور
قبل ازیں پنجاب کابینہ نے بجٹ منظور کرلیا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کی منظوری دے دی گئی۔
کابینہ نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافے کی منظوری دی جب کہ مزدور کی کم از کم اجرت کو بڑھا کر 40 ہزار روپے مقرر کر دیا گیا۔
بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کے لیے 1,240 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 47.2 فیصد زیادہ ہے اور اسے صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
غیر ملکی فنڈڈ منصوبوں کے لیے 171.7 ارب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ بلدیاتی حکومتوں کو 934.2 ارب روپے کی منتقلی طے کی گئی ہے۔
تعلیم کے شعبے کے لیے 21.2 فیصد اضافے کے ساتھ 811.8 ارب روپے اور صحت کے لیے 17 فیصد اضافے سے 630.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ زراعت کے لیے 10.7 فیصد اضافے کے ساتھ 129.5 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔
بجٹ میں جاری اخراجات کا مجموعی حجم 2,026.7 ارب روپے ہے جو پچھلے سال کی نسبت 5.9 فیصد زیادہ ہے جب کہ سروس ڈیلیوری اخراجات میں 5.8 فیصد کمی کرتے ہوئے 679.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
محصولات کے لحاظ سے ایف بی آر کا ہدف 14,131 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جس میں پنجاب کا حصہ 4,062.2 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے اپنا ریونیو ہدف 828.1 ارب روپے مقرر کیا ہے، جس میں ٹیکس آمدن کا ہدف 524.7 ارب اور نان ٹیکس آمدن 303.4 ارب روپے طے کی گئی ہے۔
پنجاب ریونیو اتھارٹی کو 340 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، جو گزشتہ برس کی نسبت 13 فیصد زیادہ ہے۔ اربن امویبل پراپرٹی ٹیکس کا ہدف 32.5 ارب روپے جبکہ بورڈ آف ریونیو کا ریونیو ہدف 105 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں 72.3 ارب روپے کی ٹارگٹڈ سبسڈی بھی رکھی گئی ہے۔
وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف بجٹ تقریر کے دوران اراکان اسمبلی کے مسائل سنتی رہیں۔ اراکان اسمبلی بجٹ تقریر سننے کی بجائے وزیراعلی پنجاب سے درخواستوں پر سائن کرواتے رہے۔
پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ
یہ بجٹ پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے جس میں تعلیم کے بجٹ میں 127 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، صحت کے بجٹ میں 41 فیصد، پولیس کے بجٹ میں 132 فیصد، زراعت کے بجٹ میں 24 فیصد، ٹرانسپورٹ کے بجٹ میں 359 فیصد، انوائرمنٹ پروٹیکشن کے بجٹ میں 50 فیصد، بلدیہ کے بجٹ میں 130 فیصد، ہاؤسنگ اربن ڈوپلپمنٹ اینڈ پبلک ہیلتھ کے بجٹ میں 211 فیصد، فشریز، وائلڈ لائف، جنگلات کے بجٹ میں 59 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
کم از کم اجرت میں اضافہ
پنجاب حکومت نے موجودہ بجٹ میں کم از کم اجرت کو بڑھا کر 40 ہزار روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صحافیوں کے لئے خوشخبری
صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو اپنی چھت دینے کی سوچ کے تحت جرنلسٹ ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے لئے بجٹ میں چالیس کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ صحافی برادری اور میڈیا ورکرز کی فلاح و بہبود کے لئے جرنلسٹ انڈومنٹ فنڈ بھی قائم کیا جارہا ہے جس کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایک ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
تعلیم
بجٹ میں محکمہ ایجوکیشن کے غیر ترقیاتی اخراجات کے لئے 661 ارب روپے مختص کئے گئے۔ ہونہار اسکالرشپس کے لئے 15 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ ساڑھے چار ارب روپے سے طلباء کو وظائف دیے جائیں گے۔
سی ایم پنجاب لیپ ٹاپ اسکیم کے تحت یونیورسٹی اور کالجز کے طلباء کو باالترتیب 27 ارب اور 10 ارب کی لاگت سے 112000 طلباء کو لیپ ٹاپ دیے جائیں گے۔
اسکولوں میں سہولیات کے لئے 5 ارب روپے اور پیف کے لیے 35 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ میں خواتین کے لیے حکومت نے آٹھ نئے گرلز کالج بنانے کے لیے دو ارب روپے مختص کیے ہیں۔ پنجاب میں قائم کالجز میں آئی ٹی لیبز کے لیے بھی دو ارب رکھے گئے ہیں۔ پنجاب میں قائم یونیورسٹیز کے لیے 25 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صحت
ترقیاتی مد میں صحت کے شعبے کے لئے 181 ارب روپے اور صحت کے غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 450 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ سینٹر کے لئے 14 ارب کا فنڈز جاری کیا گیا ہے جبکہ اس سال 12ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ نوازشریف انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے لئے 2اعشاریہ چھ ارب روپے، نوازشریف میڈیکل ڈسٹرکٹ کے قیام اور لینڈ ایکوزیشن کے لئے 109 ارب، مریم نواز ہیلتھ کلینک پروگرام کے لئے 9 ارب روپے اور مریم نواز کمیونٹی ہیلتھ پروگرام 12 اعشاریہ چھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صوبے میں سو نئے بچت بازار قائم کرنے کا فیصلہ
پنجاب حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبہ بھر میں 100 نئے سہولت بازار قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سہولت بازار پنجاب کی 100 تحصیلوں میں پرائس کنٹرول اینڈ کموڈیٹیز ڈیپارٹمنٹ کے تحت قائم کیے جائیں گے جن کی تکمیل کی آخری تاریخ 30 جون 2026 مقرر کی گئی ہے۔
منصوبے کے لیے آئندہ بجٹ میں 13 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ لاہور میں سہولت بازاروں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے مزید 15 مقامات پر بازار قائم کئے جائیں گے۔
دیگر شہروں میں بھی سہولت بازار قائم کیے جائیں گے جن میں ڈی جی خان، بہاولپور، وہاڑی، لودھراں، لیہ، چکوال, فیصل آباد، سرگودھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، فاروق آباد، وزیرآباد، جڑانوالہ، بھلوال، چونیاں، پتوکی، منڈی بہاؤالدین، اوکاڑہ، نارووال، چنیوٹ، شرقپور، جہلم شامل ہیں۔
پنجاب پولیس
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں امن و امان کے شعبہ کے لیے ترقیاتی مد میں 10 ارب روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 290 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پنجاب پولیس کی صلاحیت بڑھانے کے لیے مجوزہ غیر ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
پنجاب پولیس کی بلڈنگز کنسٹرکشن و دیگر منصوبوں کے لیے 7 ارب 49 کروڑ 99 لاکھ روپے مختص ہوئے ہیں۔ پولیس دفاتر، ہاؤسنگ و دیگر ہیڈ کوارٹرز کی تعمیر و توسیع کے نئے منصوبوں کے لیے 5 ارب 25 کروڑ 60 لاکھ کی رقم مختص ہوئی ہے۔
پہلے سے جاری شدہ منصوبوں کے لیے 2 ارب 24 کروڑ 38 لاکھ کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے،سی سی ڈی کے لیے غیر ترقیاتی مد میں 3.3 ارب روپے مختص کردیے گئے۔
کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے ترقیاتی مد میں 3.24 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اسمارٹ سیف سٹیز سی ایم تحصیل منصوبہ میں 10 ڈویژنز کے لیے 5.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کی اَپ گریڈیشن کے لیے 1.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اسمارٹ سیف سٹیز انیس اضلاع پروگرام کی تکمیل کے لیے 2 ارب 54 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی
آئی ٹی کے لیے 5 ارب 94 کروڑ 66 لاکھ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ ایک ارب 35 کروڑ 51 لاکھ روپے کی رقم سے آئی ٹی کی نئی اسکیمیں اور منصوبے شروع ہوں گے، 4 ارب 59 کروڑ 15 لاکھ روپے آئی ٹی سیکٹر میں جاری شدہ اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ آئی ٹی سیکٹر کے لیے مختص خطیر رقم سے سیف سٹی منصوبے مکمل ہوں گے۔ پنجاب پولیس کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لیے رقم خرچ کی جائے گی۔
جنگلات، جنگلی حیات اور فشریز
پنجاب حکومت نے بجٹ 2025-26 میں جنگلات، جنگلی حیات اور فشریز کے لیے 140 ارب سے زائد فنڈز تجویز کیا ہے۔ محکمہ جنگلات کی 6 جاری اور 6 نئی اسکیموں کے لیے 37.5 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے ہیں۔
جنگلات کے جاری منصوبوں کے لیے 26.18 ارب اور نئی اسکیموں کے لیے 11.32 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔ نئے مالی سال میں محکمہ جنگلات کے لیے 4.90 ارب روپے جاری کیے جائیں گے۔
لال سوہانرا نیشنل پارک میں ایکوٹورازم سہولیات کے لیے 5 کروڑ روپے منظور ہوئے ہیں، چیف منسٹر انیشیٹو پلانٹ فار پاکستان کے لیے 4.24 ارب روپے مختص ہوئے ہیں، جی آئی ایس پروٹیکشن رجیم منصوبے کے لیے 32 کروڑ 20 لاکھ روپے جاری ہوں گے۔
نئی جنگلات اسکیموں میں نیچر انکلیو، نہروں کے ساتھ شجرکاری شامل ہے، جنگلات کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے قیام کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف کے 18 منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 46.06 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وائلڈ لائف کے جاری منصوبوں کی لاگت 28.06 ارب، نئے مالی سال میں 9.97 ارب جاری ہوں گے۔ وائلڈ لائف کی پانچ نئی اسکیموں کے لیے 18.50 ارب روپے تجویز کیے گئے۔ لاہور سفاری زو ماسٹرپلان فیز ٹو کے لیے 7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بہاولپور چڑیا گھر کی ری ویپنگ کے لیے ساڑھے تین ارب روپے رکھے گئے۔ لال سوہانرا اور سالٹ رینج میں ایکوٹورازم کے لیے ساڑھے تین ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔ جنگلی حیات کے مسکن کی بحالی اور تحفظ کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
فشریز کے 11 منصوبوں کے لیے 56.73 ارب روپے کی تجویز ہے۔ جھینگا فارمنگ منصوبے کے لیے 3.77 ارب روپے جاری ہوں گے۔ لاہور میں ماڈل مچھلی منڈی کے قیام کے لیے 10 ارب کی روپے تجویز ہے۔
مظفر گڑھ میں متعدد شرمپ اسٹیٹ منصوبوں کے لیے ہر ایک کو 10،10 ارب روپے مختص کیے گئے۔
کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا
پنجاب کے نئے بجٹ میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا موجودہ ٹیکس ڈھانچہ برقرار ہے۔ صوبائی محصولات سیلز ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، ٹرانسپورٹ ٹیکس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ کسی بھی شعبے صنعت، زراعت، صحت، تعلیم میں اضافی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
بجٹ میں 18 شعبوں کے نئے منصوبے شامل ہیں، پنجاب میں سی ایم صاف پانی اسکیم کے لیے 5 ارب روپے، دیہاتوں میں ماڈل گاؤں کے لیے 25 ارب روپے، بیرون ملک نوکریوں کے لیے پرواز کارڈ کی مد میں 6.9 ارب روپے، اے آئی اور گیم ڈویلپمنٹ ٹریننگ کے لیے 5.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،
شہریوں کو سستے داموں سولر پینل کی فراہمی کے لیے 14 ارب روپے، چھانگا مانگا کو سیاحتی پارک بنانے کے لیے 4 ارب روپے، ہائی اسپیڈ ریلوے کے آغاز کے لیے 2 ارب روپے، جدید اسمارٹ سٹی سیکیورٹی سسٹم کے لیے 5.8 ارب روپے، تعلیم کے لیے 61.3 ارب، صحت کے لیے 25 ارب، زراعت کے لیے 20 ارب ، سماجی بہبود کے لیے 150 ارب اور کھیل کے لیے 1.6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ تقریر
بجٹ تقریر کرتے ہوئے وزیر خزانہ پنجاب میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ پنجاب کے بجٹ کا مجموعی تخمینہ 5335 ارب روپے ہے، 2706 ارب روپے غیر ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص کیے ہیں، غیر ترقیاتی اخراجات میں تنخواہیں، پنشنز، ٹرانسفرز، سروس ڈلیوری اور پی ایف سی شامل ہیں اور غیر ترقیاتی اخراجات میں 6 فیصد اضافہ ہوگا، ترقیاتی اخراجات کی مد میں 1240 ارب روپے رکھے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ کا حجم پچھلے مالی سال کی بہ نسبت 47 فیصد زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے 764 اعشاریہ 2 ارب روپے کے فنڈز پی ایف سی کے ذریعے مختص کئے گئے ہیں، ویسٹ مینیجمنٹ اور میونسپل کارپوریشنز کے لئے باالترتیب 150 ارب اور 20 ارب کی گرانٹس فراہم کی جائے گی، عوام کو سماجی تحفظ کے لیے 70 ارب روپے کا الگ پیکیج بھی بجٹ میں شامل ہے، ایف ڈی پی کے ذریعے پنجاب کو 4062 ارب روپے کی ترسیلات وفاق سے موصول ہوگی، صوبائی آمدن کی مد میں 828 اعشاریہ دو ارب کا ہدف مقررہ کیا گیا ہے، پنجاب ریونیو اتھارٹی 340 ارب روپے، بورڈ آف ریونیو 135۔5 ارب روپے، مائنز اینڈ منرلز کے ذریعے 30 ارب روپے حاصل ہو گے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ فارن فنڈنگ پروگرام، لونز اور اسٹیٹ ٹریڈنگ کی مد میں 97 اعشاریہ 9 ارب کا تخمینہ ہے، وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کے تحت 740 ارب روپے کا ای پی ایس بھی بجٹ میں شامل ہے۔
صحت کے شعبے میں انقلابی اقدامات
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت پنجاب صحت کے شعبے میں غیر معمولی اقدامات کرتے ہوئے اسے ایک جامع اور فعال نظام کی طرف لے جا رہی ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صحت کے شعبے کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے جس میں بہتری کی نئی راہیں کھولی گئی ہیں۔
پنجاب میں صحت کی سہولیات میں اضافہ اور بہتری کے لیے رواں مالی سال کے دوران 181 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو کہ گزشتہ سال کی بہ نسبت 131 فیصد زیادہ ہے۔ اگلے مالی سال کے لیے 450 ارب روپے کے فنڈز تجویز کیے گئے ہیں، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ ہیں۔
صوبائی حکومت نے اسپتالوں کی خدمات اور عملے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے HRMIS (ہیومن ریسورس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) کا نفاذ کیا ہے، جو عملے کی حاضری اور خدمات کی نگرانی کے ساتھ ساتھ کارکردگی کو بہتر بنانے کا جدید نظام فراہم کرے گا۔
اس کے علاوہ پنجاب میں جدید سہولیات سے آراستہ "نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ سینٹر" کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے لیے مالی سال 2024-25 میں 14 ارب روپے کے فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ اسپتال کی کل لاگت 72 ارب روپے ہو گی اور 915 بستروں پر مشتمل ہوگا۔ اس منصوبے کے لیے 12 ارب روپے کی خطیر رقم پہلے ہی مختص کی جا چکی ہے۔
یہ اقدامات حکومت پنجاب کی صحت کے شعبے کو ترقی دینے اور عوام کو معیاری طبی سہولیات فراہم کرنے کے عزم کا واضح ثبوت ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے وژن کے تحت صحت کے شعبے میں یہ اصلاحات ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوں گی۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لئے 764 اعشاریہ 2 ارب روپے کے فنڈز پی ایف سی کے ذریعے مختص کیے گئے ہیں، ویسٹ مینیجمنٹ اور میونسپل کارپوریشنز کے لیے باالترتیب 150 ارب اور 20 ارب کی گرانٹس فراہم کی جائے گی، عوام کو سماجی تحفظ کے لئے 70 ارب روپے کا الگ پیکیج بھی بجٹ میں شامل ہے۔
انہوں ںے بتایا کہ ایف ڈی پی کے ذریعے پنجاب کو 4062 ارب روپے کی ترسیلات وفاق سے موصول ہوں گی، صوبائی آمدن کی مد میں 828 اعشاریہ دو ارب کا ہدف مقررہ کیا گیا ہے، پنجاب ریونیو اتھارٹی 340 ارب روپے، بورڈ آف ریونیو 135۔5 ارب روپے، مائنز اینڈ منرلز کے ذریعے 30 ارب روپے حاصل ہو گے، فارن فنڈنگ پروگرام، لونز اور اسٹیٹ ٹریڈنگ کی مد میں 97 اعشاریہ 9 ارب کا تخمینہ ہے۔