عیدالاضحی اور ہمارے اجتماعی رویے

عید کے دن جہاں پہلے خوشیوں کی صدائیں گونجتی تھیں، آج وہی دن غربت، فاقہ کشی اور بھوک کی علامت بن گیا ہے


ایڈیٹوریل June 10, 2025
اعتدال میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق گوشت کھانا چاہیے ۔ فوٹو : فائل

ملک بھر میں عیدالاضحی مذہبی جوش و جذبے سے منائی گئی، چھوٹے بڑے شہروں میں نماز عید کے اجتماعات کا انعقاد ہوا۔ عید کے اجتماعات میں ملک و قوم اور امت مسلمہ بالخصوص فلسطین کے مسلمانوں کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے عید کے تینوں دن جانوروں کی قربانی کا سلسلہ جاری رہا ۔ عید کے موقع پر امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے ملک بھر میں سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے جس کی وجہ سے پورے ملک میں دہشت گردی کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

 عید الاضحی اسلامی سال کا ایک عظیم الشان تہوار ہے جو نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال اطاعت و قربانی کی یاد دلاتا ہے بلکہ ہر مسلمانوں کو تقویٰ، ایثار اور انفرادی و اجتماعی ذمے داریوں کی ترغیب بھی دیتا ہے۔600 سے زائد دنوں سے اسرائیلی مظالم کا نشانہ بننے والے غزہ کے لوگوں نے دکھ تباہی اور محرومی کی فضا میں عیدالاضحی منائی، شہریوں نے اس عید کو زندگی کی سب سے مشکل عید قرار دیا ہے۔

جہاں عید روایتی طور پر خوشیوں، قربانی اور میل ملاپ کا موقع ہوتی ہے، وہیں اس بار فلسطینیوں کے لیے یہ دن مایوسی اور صبر کا امتحان بن گیا ہے۔ غزہ میں اب عید کوئی خوشی کا تہوار نہیں، بلکہ مصیبتوں کی طویل فہرست میں ایک اور اندوہناک دن بن چکی ہے۔ نہ قربانی کا گوشت، نہ عید کی خوشبو۔ حد یہ ہے کہ بھوکے پیاسوں کو آٹے کی چٹکی بھی دستیاب نہیں۔ عید کے دن جہاں پہلے خوشیوں کی صدائیں گونجتی تھیں، آج وہی دن غربت، فاقہ کشی اور بھوک کی علامت بن گیا ہے۔

خستہ حال، تھکے ہوئے لاشوں جیسی انسانوں کی قطاریں تپتی دھوپ میں کسی امدادی ٹرک کے انتظار میں کھڑی ہیں مگر وہ ٹرک کبھی نہیں آتا، بس حسرتیں رہ جاتی ہیں اور تکلیف اور بڑھ جاتی ہے۔ قابض اسرائیل اقوامِ متحدہ کو امداد تقسیم کرنے سے روکے ہوئے ہے، جب کہ مصر انسانی امداد کو عسکری اجازت ناموں سے مشروط کر چکا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ قحط اب محض اندیشہ نہیں، ایک زندہ حقیقت بن چکا ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر جہاں عبادت و اطاعت کا روحانی پہلو اہم ہے، وہیں اس کے عملی تقاضے، بالخصوص گھروں اورگلی محلوں میں صحت و صفائی، قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت میں نظم و ضبط اور بنیادی شہری سہولیات کی دستیابی میں حکومت و انتظامیہ کا کردار اور شہریوں کا ان سے تعاون بھی خاص توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں۔

 اس بار عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی کے بعد آلائشیں اٹھانے اور صفائی کے انتظامات میں لاہور انتظامیہ کی کارکردگی بہتر رہی ۔ اطلاعات کے مطابق شہر کے مختلف چوک، چوراہے اور گلی کوچوں میں صفائی کا مناسب انتظام رہا اور بلدیہ کے ملازمین آلائشیں اٹھانے میں مصروف نظرآئے، کراچی میں صفائی ستھرائی کے انتظامات روایت کے مطابق رہے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ادارہ اور حکومت سندھ متحرک ضرور رہی لیکن شہر کراچی کی آبادی بھی زیادہ ہے اور یہاں کے مسائل بھی ملک کے دوسرے شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ آلائشوں کے لیے 99 کلیکشن سینٹر قائم کیے ہیں، عید الاضحیٰ میں کچرے کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، اس لیے چونے کا چھڑکاؤ اور فیومیگشن کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ بہرحال کراچی کا سائز جتنا بڑا ہے، اسے صاف رکھنے کے لیے جدوجہد بھی اتنی ہی زیادہ کرنا پڑے گی ، تب جاکر نتائج اچھے ہوسکتے ہیں۔

صفائی ستھرائی کے انتظامات کسی بھی صوبے کی شہری اور ضلع انتظامیہ کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، اٹھارھویں ترمیم کے بعد اب ہر بات پر وفاق کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، اگر صوبہ پنجاب کی صوبائی حکومت کی مثال سامنے رکھتے ہوئے دیگر صوبے بھی اپنے دیہات، قصبوں اور شہروں میں آلائشیں اٹھانے اور صفائی ستھرائی کے انتظامات کے حوالے سے صوبائی اور شہری انتظامیہ بہترین کوآرڈیشن کریں تو یہ شہروں اور قصبوں کو صاف ستھرا رکھنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔

 عید قربان کے دن جہاں مسلمان اپنی مالی استطاعت کے مطابق جانور قربان کرتے ہیں، وہیں ہمیں اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے اس عمل سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔ گلی محلوں اور ندی نالوں میں آلائشیں پھینکنا، راستوں کو آلودہ کرنا یا صفائی کے نظام میں خلل ڈالنا روحِ قربانی کے منافی ہے۔ اسلام نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے اور عید قربان جیسے موقع پر صفائی کا خیال رکھنا دینی و سماجی فریضہ بن جاتا ہے۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ یہ حدیث صفائی کی اہمیت کو انتہائی اعلیٰ درجہ پر بیان کرتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی زندگی میں طہارت و نفاست کا کیا مقام ہے، بالخصوص عید الاضحی جیسے مواقع پر جب صفائی کا معاملہ عوامی صحت سے جُڑ جاتا ہے۔

اس لیے ہر شہری کا فرض ہے کہ قربانی کے دنوں میں صفائی کے اصولوں کا خاص خیال رکھے، تاکہ یہ دینی تہوار اللہ کی رضا اور خلقِ خدا کی آسانی دونوں کا ذریعہ بنے۔ قربانی کے بعد آلائشوں کو مقررہ مقامات پر رکھنا، میونسپل اہلکاروں کے ساتھ تعاون کرنا اور شکایات کی صورت میں متعلقہ اداروں سے رابطہ کرنا ہر شہری کی بنیادی ذمے داری ہے۔ صفائی محض حکومت کی ذمے داری نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی مشترکہ ذمے داری ہے اور جب تک عوام خود شعور کا مظاہرہ نہیں کریں گے حکومتی کوششیں مکمل طور پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں۔

قومیں اپنے اجتماعی رویے سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہماری سڑکوں پر چلتی ٹریفک، ہمارے پبلک ٹوائلٹس میں صفائی ستھرائی، ہوائی اڈوں، ریلوے اسٹیشنز اور بس اسٹاپس پر لائن بنانا، دفاتر میں عوام کے ساتھ ہونے والا سلوک، ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں ہماری حساسیت، قانون کی پاسداری اور دیگر اجتماعی رویے ہماری پہچان ہیں۔ کسی قوم کے اجتماعی رویے میں تہذیب اور بلند اخلاقیات اُس وقت منعکس ہوتی ہیں جب شرحِ خواندگی بلندیوں کو چھو رہی ہو اور اساتذہ کی اخلاقیات بھی اعلیٰ درجے کی ہوں۔ بدقسمتی سے تاحال ارضِ پاکستان میں یہ دونوں ہی روبہ زوال ہیں جس کی وجہ سے ہمارے اجتماعی رویے شرمناک حد تک خراب ہیں۔

عید الاضحی کے مبارک موقع پر نمازِ عید کے بعد ملک کے طول و عرض میں قربانیوں کا عمل شروع ہوتا ہے جو 3 دن تک جاری رہتا ہے لیکن قربانی کے جانوروں کی گندگی اور آلائشوں سے تعفن اٹھنے کا سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہتا ہے۔ لوگ اپنے جانوروں کی غلاظتوں کو ذمے داری سے ٹھکانے لگانے کے بجائے گلی محلے کی نکڑ پر گلنے سڑنے کے لیے ڈال دیتے ہیں جس سے نہ صرف گندگی و تعفن پھیلتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، بیماریاں پھیلتی ہیں اور گلی، محلے، شہر کی خوبصورتی الگ خراب ہوتی ہے۔

یہ ہمارا وہ بدترین اجتماعی رویہ ہے جسے سدھارنے میں ہمارے پیارے نبیﷺ کا یہ فرمان بھی ہم پر اثر نہیں کرتا کہ ’صفائی نصف ایمان ہے‘ جس کا اطلاق انفرادی و اجتماعی صفائی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے لیکن ہم ہیں کہ ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صفائی ستھرائی پر مامور ادارے و سرکاری ہرکارے جہاں اپنے کام میں سستی کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں عوام الناس کی طرف سے بھی صفائی کی انفرادی کوششوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔

اگرچہ بنیادی طور پر یہ سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی ہی ذمے داری ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر صفائی کے انتظامات کو یقینی بنائیں لیکن اس حوالے سے عوام الناس بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ عوام کو چاہیے کہ جس اہتمام سے وہ جانور خریدتے ہیں، اس کی خدمت سیوا کرتے ہیں، قربانی کے لیے قصائی کا بندوبست کرتے ہیں، گوشت بانٹتے اور پکا کے کھاتے کھلاتے ہیں، اسی اہتمام سے قربان کیے گئے جانوروں کی آلائشوں اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی انتظام کریں۔

سب جانتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کی کوئی چیز ضایع نہیں کی جاتی اور آلائشوں کو مفت میں اٹھا کر لے جانے والے باآسانی مل جاتے ہیں۔ سرکاری اداروں پر نہ رہیں، زندگی کے اور کتنے ہی معاملات ایسے ہیں جن میں ہم اداروں پر تکیہ کرنے کے بجائے ذاتی حیثیت میں کوشش کر کے اپنا اور دوسروں کا بھلا کرلیتے ہیں۔

اسی طرح اس حوالے سے بھی انفرادی کوشش کو اپنا فرض جانیں۔ یہ آپ کی گلی، آپ کا محلہ، آپ کا علاقہ اور آپ کا شہر ہے، یہ آپ کا پیارا پاکستان ہے۔ عید کے موقع پر یہ ایسے ہی صاف ستھرا دکھائی دینا چاہیے جیسے ہمارے گھر خوشی کے موقع پر چمک دمک رہے ہوتے ہیں۔ آئیے! عہد کریں کہ ہم ہر عید پر ایسا ہی کریں گے اور اپنی آیندہ نسلوں کو بھی یہی تربیت دیں گے۔

مقبول خبریں

OSZAR »