پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صدر جنید اکبر نے کہا ہے کہ ہمارے پاس اب کوئی آپشن نہیں بچا، اس لیے ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں حتمی مشاورت جاری ہے۔ ہم لڑنا نہیں چاہتے لیکن ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں چھوڑا گیا ہے۔ صدر پی ٹی آئی کے پی جو قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مکمل سرکاری مراعات حاصل کر رہے ہیں۔
ان کا اشارہ موجودہ حکومت کی طرف ہے کہ جس نے ان کے لیے کوئی آپشن نہیں چھوڑا جس کی وجہ سے ہم بااختیار لوگوں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما رؤف حسن کا کہنا ہے کہ مذاکرات انھی کے ساتھ ہوتے ہیں جن کے پاس طاقت ہوتی ہے۔
ہم مذاکرات کسی ڈیل کے لیے نہیں کرنا چاہتے۔ موجودہ حکومت کے پاس ہمیں کچھ دینے یا ہم سے مذاکرات کے لیے کچھ نہیں اسی لیے ہمارے حکومت کے ساتھ مذاکرات اگر ہو رہے ہیں تو کسی ڈیل کے لیے نہیں ہو رہے۔ پی ٹی آئی، حکومت سے مذاکرات سے انکاری بھی نہیں ہے تو قوم کو بتائے کہ اگر مذاکرات ہو رہے ہیں تو کس لیے ہو رہے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو کچھ دینے کی طاقت ہی نہیں ہے۔
حساس تنصیبات اور فوجی شہدا کی یادگاروں پر دو سال قبل پی ٹی آئی نے حملے کرائے تھے جس کی وجہ سے ان کے بانی سمیت متعدد عہدیداروں اور کارکنوں پر مقدمات قائم ہوئے تھے جن کی سماعت جاری بھی ہے اور کچھ سزائیں اور رہائیاں بھی ہو چکی ہیں مگر بانی اور دیگر رہنماؤں کے مقدمات کے فیصلے ہونا باقی ہیں ۔
معافی کا آپشن واپس نہیں لیا گیا ہے اور پی ٹی آئی رہنما کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے ان کے لیے کوئی آپشن نہیں چھوڑا جس کے بعد ہمارے پاس اب سڑکوں پر آنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا مگر ہم مذاکرات طاقتوروں کے ساتھ ہی کرنا چاہیں گے یا پھر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوں گے۔
پی ٹی آئی نے سڑکوں پر سات ماہ بعد پھر آنے کی بات کی ہے، جس کا اسے ماضی میں کوئی فائدہ ہوا تھا اور نہ اب ہوگا۔ پی ٹی آئی سڑکوں پر ناکامی پر گزشتہ تجربات کے بعد بھی پھر سڑکوں پر آئی تو حکومت ہی اس سے نمٹے گی کیونکہ اسلام آباد اور ڈی چوک وفاقی حکومت کے پاس ہے جس نے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو پہلے وہاں آنے دیا اور نہ اب آنے دے گی اور نہ پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات چاہتی ہے۔ مذاکرات دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جاتے ہیں مگر پی ٹی آئی سڑکوں پر آ کر حکومت کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے ۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کا ہر بار طاقتوروں سے مذاکرات کا اظہار ہوتا رہا ہے اور دوسری جانب پی ٹی آئی کے لیے اپنی حرکتوں پر معافی مانگنے کا آپشن موجود ہے ۔ہو سکتا ہے کہ جلد سانحہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور عمل کرانے والوں کے بارے میں بھی عدالتی فیصلے آجائیں ۔
پی ٹی آئی سڑکوں پر آنے کی جو خواہش رکھتی ہے وہ خواہش اب 10 مئی کی عسکری کامیابی کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچتی نظر نہیں آ رہی اور وہ حکومت کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر بار بار اصرار کر رہی ہے جس کا امکان فی الحال نظر نہیں آرہا ۔
اس لیے پی ٹی آئی کے پاس صرف ایک ہی آپشن باقی ہے جو معافی مانگنے کا ہے اور دو سال سے صورت حال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کبھی 9 مئی کرانے سے انکار کرتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ 9 مئی پر پکڑے جانے والے ہمارے کارکن ہی نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے پی و بعض رہنما تسلیم بھی کرتے ہیں کہ سانحہ 9 مئی بانی کی گرفتاری کا رد عمل تھا ۔ بانی اور پی ٹی آئی والوں کا یہ حال ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔
پی ٹی آئی کی اکثریت سمیت ملک و قوم کو پتا ہے کہ 9 مئی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا جس میں پی ٹی آئی مکمل طور پر ملوث تھی مگر وہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے ماننے کو تیار نہیں۔ پاکستان کی کسی بھی جماعت نے اب تک 9 مئی جیسا حملہ نہیں کرایا تھا جب کہ پی پی نے اپنے بانی کی پھانسی اور محترمہ کی شہادت اور (ن) لیگ نے اپنی تین حکومتوں کے خاتمے پر کوئی اس انتہا پر نہیں گیا تھا جہاں پی ٹی آئی اپنے بانی کی قانونی گرفتاری پر چلی گئی تھی۔
10 مئی کے بعد بھی بھارتی جارحیت کا خطرہ سر پر موجود ہے جو جلد ٹلتا نظر نہیں آرہا اور پی ٹی آئی بانی کے لیے سڑکوں پر پھر آ کر اپنی مشکلات بڑھانا چاہتی ہے جس پر وہ پھر ناکام ہو گی اور بھارتی جارحیت سے جو قومی یک جہتی سامنے آئی ہے اس کے بعد ضروری ہے کہ بانی اپنی غلط پالیسی بدلیں اور سانحہ 9 مئی پر صدق دل سے معافی مانگیں اور اپنی سیاست کے بجائے ملک کا مفاد مقدم رکھیں ۔ ہر جگہ غصہ اور جذبات کام نہیں آتے اس لیے کھلے دل سے غلطی مان کر سڑکوں پر آنے کے بجائے سوچ سمجھ اور بردباری کا مظاہرہ ضروری ہے۔