’’بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ’پانی کے حقوق‘ کو نام نہاد ’انسداد دہشت گردی‘ اورجموں و کشمیر کی خودمختاری کے تنازعات سے جوڑنے کی کوشش اور اپنے سیاسی و تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے آبی وسائل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی سعی نہ صرف انسانیت کے خلاف ہے، بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔
یہ تسلط پسندی کا مظہر ہے جو دھمکیوں اور دھمکیوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ چین کے مشہور تھنک ٹینک، چہار انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سینئر ریسرچ فیلو پروفیسر چینگ زی زونگ کہتے ہیں۔
ان کا مذید کہنا ہے’’بھارتی وزیراعظم مودی کہتے ہیں، پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جس پر بھارت کا حق ہے۔ مودی کی پاکستان کے خلاف آبی جنگ کی دھمکی علاقائی امن و استحکام کے لیے ایک سنگین رکاوٹ ہے اور بھارت کے اپنی بین الاقوامی امیج اور ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتی ہے جو علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں اس کے فعال کردار کے لیے سازگار نہیں ۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بھارت میں انتہا پسند قوم پرستی اور ہندوتوا کے توسیع پسندانہ عزائم عروج پر ہیں۔ مودی اس سخت موقف کے ذریعے ایک مضبوط قیادت کی تصویر بنانے کی کوشش کرتے ، ملک میں ہندوتوا اور انتہائی قوم پرست جذبات کو پورا کرتے اور گھریلو ووٹروں کی زیادہ حمایت حاصل کرتے ہیں۔
تاہم بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ فضائی جنگ میں بھارت کو چھ جدید لڑاکا طیاروں کے نقصان سمیت سنگین فوجی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور مودی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ دریں اثنا بھارت کو معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے جیسے مہنگائی کی شرح 9.7 فیصد سے زیادہ ہے اور روپے کی شرح تبادلہ میں زبردست گراوٹ جس کی وجہ سے نریندر مودی انتظامیہ کے لیے بھارتی عوام میں عدم اطمینان ہے۔
مودی سخت بیانات دے کر عوام کی توجہ اپنی حکمرانی کے بحران اور معاشی مشکلات سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ ملکی سیاسی دباؤ کم کرنے کے لیے بیرونی دشمنوں کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہیں۔پروفیسر چینگ نے کہا کہ دریائے سندھ کے بالائی علاقے بھارت میں واقعہیں اور وہ آبی وسائل کی تقسیم میں جغرافیائی فوائد رکھتا ہے۔
پاکستان کی طرف بہنے والے آبی وسائل پاکستان کی زراعت، صنعت اور معاش کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ مودی کی "پانی بند کرنے" کی دھمکی کا مقصد مستقبل کے مذاکرات میں پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے آبی وسائل کا استعمال کرنا ہے۔نیز پاکستان کو بنیادی مفادات کے لیے رعایت دینے پر مجبور کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
یاد رہے، حالیہ پاک بھارت فضائی جنگ میں بھارت کی ناکامی کے سکینڈل کا چرچا اب بھی بھارتی میڈیا میں جاری ہے۔ اگر اسے مناسب طریقے سے نہیں سنبھالا گیا، تو اس کا جنوبی ایشیا میں بھارت کی جغرافیائی سیاست کی عالمی حیثیت اور غلبے پر گہرا منفی اثر پڑے گا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان فضائی جنگ نے بھارت کی فوجی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے اور اس سے ملک کے نظام اور فوجی ترقی میں بھی بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
مودی انتظامیہ بین الاقوامی برادری کے سامنے بھارت کے سخت موقف کو ظاہر کرنے، بین الاقوامی برادری میں اپنی حیثیت بحال کرنے اور بین الاقوامی رائے عامہ کے ذریعہ بھارت کی منفی تشخیص کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پاکستان کے نزدیک مودی کا سخت موقف قلیل مدتی عوامل جیسے گھریلو سیاسی تحفظات سے زیادہ کارفرما ہے۔ تاہم طویل مدتی اور عملی لحاظ سے یہ نقطہ نظر نہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے گا، بلکہ علاقائی امن و استحکام کے ساتھ ساتھ بھارت کی اپنی ترقی پر بھی بہت سے منفی اثرات مرتب کرے گا۔
افواج پاکستان کا انتباہ
اس دوران پاک فوج نے خبردار کیا ہے کہ دریائے سندھ کے پانی کے نظام میں پاکستان کا حصہ کاٹنے کی حالیہ دھمکیوں پر عمل کرنے کی کسی بھی بھارتی کوشش کے نتائج نسلوں تک جاری رہیں گے۔ واضح رہے، بھارت نے گزشتہ ماہ یکطرفہ طور پر پاکستان کے ساتھ کئی دہائیوں پرانے پانی کی تقسیم کے معاہدے کو معطل کر دیا تھا۔ ورلڈ بینک کی ثالثی میں 1960ء کا سندھ آبی معاہدہ کئی بھارت پاکستان جنگوں کا مقابلہ کر چکا ۔
اگر بھارت پانی کو ہتھیار بناتا اور دریائے سندھ کی معاون ندی کے بہاؤ کو روکتا ہے جو پاکستان کی غذائی تحفظ کے لیے ضروری ہے تو پاک فوج کا کہنا ہے کہ وہ کارروائی کرے گی۔ "مجھے امید ہے کہ وہ وقت نہیں آئے گا، لیکن یہ ایسے اقدامات ہوں گے جو دنیا دیکھے گی اور اس کے نتائج ہم آنے والے سالوں اور دہائیوں تک لڑیں گے۔‘‘پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے عرب نیوز کو بتایا اور کہا کہ کوئی بھی پاکستان کا پانی روکنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ "وہ کوئی پاگل آدمی ہی ہو گا جو یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ۲۵ کروڑ لوگوں کا پانی روک لے گا۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج پیشہ ور مسلح افواج ہیں اور ہم ان وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں، اور ہم سیاسی حکومت کی ہدایات اور ان کے وعدوں پر عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستانی فوج کا تعلق ہے، یہ جنگ بندی آسانی سے برقرار رہے گی اور دونوں اطراف کے درمیان رابطے میں اعتماد سازی کے اقدامات کیے گئے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا، "اگر کوئی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو ہمارا ردعمل ہمیشہ موجود ہوتا ہے... لیکن یہ صرف ان پوسٹوں اور ان مقامات پر ہوتا ہے جہاں سے جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ہم کبھی عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے، ہم کبھی کسی سول انفراسٹرکچر کو نشانہ نہیں بناتے۔‘‘ انہوں نے جنگ بندی کے باوجود نئے تنازعات کے اعلیٰ امکانات کے بارے میں خبردار کیا، جب تک کہ بنیادی مسئلہ کشمیر پر توجہ نہیں دی جاتی۔
امریکی میڈیا سے گفتگو
امریکہ میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے بھی امریکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی قوم کے لیے پانی روکنا جنگی عمل تصور کیا جائے گا۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطلی کی اجازت نہیں دیتا اور معاہدے میں ایسی کارروائی کی کوئی شق نہیں ۔ مزید کہا کہ عالمی برادری پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حمایت نہیں کرے گی۔
سفیر نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں امریکی قیادت کی کوششوں کو سراہا۔ یہ بھی کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امن کے داعی ہیں اور پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ان کی کوششوں کو سراہتا ہے۔پاکستان کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے پرعزم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی قیادت کے اشتعال انگیز بیانات علاقائی کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں اور انتہا پسند ہندوتوا نظریے کی عکاسی کرتے ہیں۔مذید براں بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے میں بھارت کا کردار دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ڈٰیموں پر کام تیز
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے، حکومت دیامر بھاشا ڈیم سمیت ڈیموں کے تمام منصوبوں کی جلد تکمیل کو یقینی بنائے گی تاکہ بھارت کو آبی وسائل سے فائدہ اٹھانے سے روکا جا سکے۔اس معاملے سے واقف لوگوں کے مطابق بھارت پہلگام میں سیاحوں پر اپریل میں ہونے والے مہلک حملے کی انتقامی کارروائی کے ایک حصے کے طور پرغیر قانونی طور پہ دریائے چناب سے ڈرامائی طور پر پانی نکالنے کے منصوبوں پر غور کر رہا ہے جو پاکستانی کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔پاکستان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے، لیکن دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان دہائیوں میں ہونے والی بدترین لڑائی کے بعد اس ماہ کے شروع میں جنگ بندی پر رضامندی کے باوجود یہ معاہدہ بحال نہیں ہو سکا ۔
انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان سے تعلق رکھنے والے انجینئرز کے ایک وفد سے بات کرتے ہوئے احسن اقبال وزیر نے کہا کہ بھارت کی آبی جارحیت کی روشنی میں ڈیموں کی جلد از جلد تعمیر کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طویل مدتی طور پر پانی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایسے اقدامات کی خاطر ترجیحی بنیادوں پر فنڈز مختص کیے جائیں گے۔
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ طاس معاہدے میں بھارت کی شرکت کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے بعد مودی نے حکام کو دریائے چناب، جہلم اور سندھ پر منصوبوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کو تیز کرنے کا حکم دیا ہے۔معاہدے کے تحت پانی کے یہ تین ذخائر بنیادی طور پر پاکستان کے استعمال کے لیے نامزد کیے گئے ہیں۔
بھارت کو آبپاشی کے لیے چناب سے محدود مقدار میں پانی نکالنے کی اجازت ہے، لیکن ایک توسیع شدہ نہر جس کی تعمیر میں کئی سال لگ سکتے ہیں ، اسے 150 کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے گی جو کہ اس وقت تقریباً 40 مکعب میٹر ہے۔یہ حقیقت سرکاری بات چیت اور ذرائع سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق سامنے آئی ہے۔ پاکستان میں80 پاکستانی کھیتوں کا انحصار انڈس سسٹم پر ہے، جیسا کہ ملک میں کام کرنے والے تقریباً تمام ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کرتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے آبی تحفظ کے ماہر ڈیوڈ مشیل نے کہا کہ دہلی کی طرف سے ڈیموں، نہروں یا دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر کی کوئی بھی کوشش جو سندھ کے نظام سے بھارت کی طرف ایک خاصی مقدار میں بہاؤ کو روکے یا اس کا رخ موڑ دے ،اس کا بندوبست ہونے میں برسوں لگیں گے۔"
سوچا سمجھا منصوبہ
مقبوضہ جموں وکشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پہ پْراسرار حملہ ہوا تو اگلے دن ہی بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔پاکستان پہلے ہی امریکی صدر ٹرمپ کی مسلط کردہ ’’ٹیرف جنگ‘‘سے نبردآزما تھا کہ اس پر ’’پانی کی جنگ‘‘تھوپ دی گئی۔جس سرعت سے بھارتی حکمران طبقے نے اپنی آبی جنگ کا آغاز کیا ، لگتا ہے کہ پہلگام حملہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کی آڑ لے کر یہ انتہائی قدم اٹھایا گیا۔ ظاہر ہے، جن دریاؤں کا پانی دنیا کی پانچویں بڑی مملکت کے چوبیس کروڑ باسیوں کے لیے ’’لائف لائن‘‘کی حیثیت رکھتا ہے، اس کو روکنے کی محض دہمکی دینا بھی اعلان جنگ سمجھا جائے گا جیسا کہ حکومت پاکستان نے بھی واضح کیا۔
بھارت میں ایسی تعصب پرست جماعت حکومت کر رہی ہے جس نے مسلمانوں اور پاکستان کو نشانہ بنا کر ہندو عوام میں مقبولیت پائی۔ وہ دس سالہ اقتدار میں بیشتر میڈیا کو بھی اپنی مٹھی میں لے چکی۔ پاکستان کے خلاف جنگی ماحول کو جنم دینا ہمیشہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا وتیرہ رہا جو اس کے لیے بہت سود مند ثابت ہوتا ہے اور وہ ان ریاستوں میں بھی پھلنے پھولنے لگتی ہے جہاں وہ قدم نہیں جما پائی ، مثلاً بنگال ، تامل ناڈو اور کیرالہ میں۔
جنگ بازی کی شوقین مودی سرکار کو مگر یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان نہ صرف ایک سکہّ بند ایٹمی قوت بلکہ دنیا کے بہترین افواج میں شامل سپاہ بھی رکھتا ہے جو عددی طور پہ کم ہونے کے باوجود کئی لڑائیوں میں بھارتی آرمی کو چھٹی کا دودھ یاد دلا چکیں۔ لہذا پاکستان کوئی تر نوالہ نہیں بلکہ خدانخواستہ دونوں ملکوں کی جنگ ہوئی تو بھارت کا بہت بڑا حصّہ بھی تباہ ہو جائے گا اور کروڑوں بھارتی اپنے حکمرانوں کے جنگی جنون کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔پانی وہ حدِفاصل ہے جسے بھارتی حکمران طبقے نے عبور کیا تو برعظیم ہند وپاک جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
ماضی میں پانی کی اہمیت زیادہ نہیں تھی لیکن بڑھتی آبادی اور آب وہوائی تبدیلیوں کے سبب پانی پاکستان ہی نہیں کئی ممالک میں’’ مائع سونے‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکا۔یہ امر باعث تکلیف ہے کہ پاکستان میں بیشتر شہری پانی کی اہمیت سے ناواقف ہیں، اسی لیے پانی کا ضیاع عام ہے۔ نلکا خراب ہوا تو کئی دن ٹھیک نہیں کرایا جاتا اوراس دوران پینے کا ہزارہا لیٹر پانی برباد جاتا ہے۔ کئی لوگ خواہ مخواہ فرش یا کاریں تادیر دھوتے رہتے ہیں اور انھیں بالکل احساس نہیں ہوتا کہ پانی ضائع کر کے وہ گناہ میں ملوث ہو چکے۔ اللہ تعالی سورہ الاعراف ، آیت 13 میں فرماتے ہیں کہ کھاؤپیو مگر حد سے آگے نہ بڑھو کہ اللہ کو یہ عمل پسند نہیں۔اسی طرح حدیث نبوی ہے:’’ اگر تم بہتے دریا پر بھی وضو کرو تو پانی ضائع نہ کرو۔‘‘(ترمذی)خدارا پانی کا ضیاع نہ کیجیے اور اس قدرتی نعمت کی قدر کریں۔

غرض ہمارے دین میں پانی کو احتیاط سے استعمال کرنے کی تاکید ہے مگر بیشتر پاکستانی یہ مائع سونا بڑی بے دردی سے ضائع کر پوری قوم کو بڑی مصیبت میں گرفتار کرا رہے ہیں۔وطن عزیز میں 90 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس شعبے میں بھی صدیوں پرانے دقیانوسی زرعی طریقے مروج ہیں جو پانی زیادہ لیتے اور پیداوار کم دیتے ہیں۔ زراعت میں جدید طریقے متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ نہ صرف پانی کی بچت ہو بلکہ پیداوار بھی بڑھ جائے۔ بھارت میں بھی پانی کی قلت ہے۔
جنگ کی صورت میں بھارتی کسان بھی محفوظ نہیں رہے گا اور اس کی کھیتیاں تباہ ہو جائیں گی۔ نیزبرہم پترا سمیت کئی بھارتی دریا تبت اور چین میں واقع پہاڑوں سے نکلتے ہیں۔ اگر مودی سرکار نے پاکستان آتے دریاؤں کا پانی کسی بھی طرح روکا تو چین کو جواز ملے گا کہ وہ بھی بھارت میں جاتے دریاؤں پر ڈیم بنا پانی روک لے۔ بھارتی حکمران طبقے کو جلد احساس ہو گا کہ سندھ طاس معاہدہ ختم کرنا گڈے گڑیا کا کھیل نہیں بلکہ اس اقدام کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں اور جن سے بھارت ہی کو زیادہ جانی ومالی نقصان ہو گا۔
پانی پر جنگ کیوں؟
پانی کی کمی عالمی اور علاقائی سطح پر تنازعات کا باعث بنتی رہی ہے۔ پانی انسانی زندگی کے لیے اہم عنصر ہے اور انسانی سرگرمیاں پانی کی دستیابی اور معیار سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ پانی پھر محدود قدرتی وسیلہ ہے۔ پانی کے تنازعات اسی وجہ سے ہوتے ہیں کہ آبی وسائل اور پینے کے پانی کی طلب رسد سے زیادہ ہو جائے، پانی کی رسائی اور مختص کرنے پر کنٹرول میں اختلاف جنم لے یا پانی کا انتظام کرنے والے ادارے کمزور ہوں۔ آبی بحران کے عنصر متاثرہ فریقوں پر مشترکہ آبی وسائل کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں، جس سے سفارتی تناؤیا تنازع جنم لیتا ہے۔
پانی پر تناواور تنازعات اب بین الاقوامی سطح کے علاوہ مقامی سطح پر بھی رونما ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سب صحارا افریقہ میں چرواہوں اور کسانوں کے درمیان تشدد بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح دیگر وجوہ سے شروع ہونے والی جنگوں کے دوران شہروں میں پانی کے نظام پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جیسے یمن، شام، عراق اور حال ہی میں یوکرین و غزہ میں۔پانی کی کمی ایسے تنازعات اور سیاسی تناوکو بھی بڑھا سکتی ہے جو براہ راست پانی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتے۔ میٹھے پانی کے معیار و مقدار میں وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج کمی آبادی کی صحت خراب کر ، معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال اور بڑے تنازعات بڑھا کر خطّوں کے عدم استحکام میں اضافہ کر سکتی ہے۔ آب وہوائی تبدیلیاں اور بڑھتی عالمی آبادی بھی پانی کے محدود وسائل پر نئے دباوڈالنے اور پانی کے تنازعات پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
دنیا کی پہلی آبی جنگ
انسانی تاریخ میں مختلف دریاؤں جیسے دجلہ اور فرات کے پانی کے استعمال پر کافی تنازع رہا ہے۔ قدیم ترین پانی کی جنگوں میں سے ایک 2400 قبل مسیح کے قریب سمیری ریاستوں، امہ اور لگاش کے درمیان آبپاشی کے پانی پر ہوئی تھی۔
1960 ء کی دہائی سے ترکی، شام اور عراق میں پانی پر تنازع جاری ہے۔ ترکی نے ان برسوں کے دوران مسلسل1987 ء کے معاہدے کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت تقریباً 500 مکعب میٹر فی سیکنڈ پانی دجلہ اور فرات کے دریاؤں میں بہایا جانا تھا تاکہ میسوپوٹیمیا کے دلدلی علاقوں اور لاکھوں افراد کو پانی فراہم کیا جا سکے۔اسی دوران ترکی نے’’ جنوب مشرقی اناطولیہ پروجیکٹ‘‘ یا گیپ ( GAP )شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت 22 ڈیم تعمیر ہوں گے۔یہ ڈیم 120 بلین کیوبک میٹر تک پانی جمع کریں گے۔ ان بائیس ڈیموں میں سے انیس میں بجلی گھر بھی بنیں گے۔ ماہرین کا مگر کہنا ہے کہ اس منصوبے سے وہ جنگلی حیات اور لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے جو نیچے کی طرف رہ رہے ہیں اور جو دجلہ اور فرات دونوں دریاؤں پر پانی کے بغیر انحصار کرتے ہیں۔
ترکی کامنصوبہ
دریائے دجلہ اور فرات کا پانی ذخیرہ کرنے والا ترک گیپ منصوبہ ایک اعشاریہ سات ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلا ہے۔ اس کے مخالفین کا دعوی ہے، منصوبے نے ماحولیات کی صورتحال کو مزید خراب کر دیا نہ صرف ارد گرد کے ممالک بلکہ ترکی کو بھی ناقابل واپسی ماحولیاتی نقصان پہنچایا ہے۔ گیپ پراجیکٹ کے تحت چودہ ڈیم تعمیر ہو چکے جنھوں نے دریائے دجلہ اور فرات کے پانی میں ۵۰ فیصد کمی کر دی۔چناں چہ نیچے دھارے والے ممالک ،شام اور عراق تک اب کم پانی پہنچ رہا ہے۔ نیچے کی طرف پانی کی کمی کی وجہ سے بہت سے کرد بے گھر ہو گئے۔نیز فرات میں پانی کی نمکیات میں اضافہ 1000 پی پی ایم( PPM )تک پہنچ گیا۔ڈیموں کی وجہ سے عراق کو زراعت کے لیے استعمال ہونے والی بھرپور نامیاتی مٹی اب کم میسّر آتی ہے۔
چین اور پڑوسی
میکونگ طاس میں سب سے اوپر والے ملک، چین نے دریا کے ہیڈ واٹرس پر ڈیموں کا ایک سلسلہ تعمیر کیا ہے۔ اس سے بہاو کے حجم میں کمی آ گئی اور اب دریا کے نیچے والے ممالک، ویتنام، لاوس، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کو کم پانی مل رہا ہے۔ چین نے اب تک میکونگ دریا پر 21ڈیم بنائے ہیں جو چین سے میانمار، لاؤس، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویتنام سے ہوتے ہوئے بحیرہ جنوبی چین تک جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اب میکونگ کا بہاوکنٹرول کرنے کی پوزیشن میں ہے۔اس باعث وہ نیچے کی طرف والی قوموں سے زیادہ فائدے میں ہے جو بہرحال چین کی خیر سگالی پر بھروسا کرتی ہیں۔
ایک اور مشہور کیس میں سویت دور میں آبپاشی کی زراعت (خاص طور پر کپاس) کی حد سے زیادہ ترقی نے دریائے آمو دریا کو تقریباً خشک کر دیا ہے۔یہ دریا ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور افغانستان میں بہہ کر بحیرہ ارال میں جا گرتا تھا۔ دریا ختم ہونے کے باعث بحیرہ ارال کا حجم بھی اب بہت کم ہو چکا۔
مصر اور ایتھوپیا
1979ء میں مصری صدر انور سادات نے کہا تھا کہ مصر کی نئی جنگ پانی پر ہو گی۔ وجہ یہ کہ مصر کے پڑوسی ممالک کے ساتھ آبی تنازعات چل رہے ہیں جن میں ایتھوپیا سرفہرست ہے۔ چند سال قبل مصر اور ایتھوپیا کے درمیان آبی مسائل حل کرنے کی بات چیت کے درمیان ایتھوپیا ئی وزیر اعظم میلس زیناوی نے کہا : "میں اس بات سے پریشان نہیں کہ مصری اچانک ایتھوپیا پر حملہ کر دیں گے۔ جس نے بھی اس کی کوشش کی ، وہ کہانی سنانے کے لیے زندہ نہیں رہا۔"
مصر اور ایتھوپیا کے درمیان ’’گرینڈ ایتھوپیا نشاۃثانیہ ڈیم‘‘ پر تنازع ہے جو آخرالذکر دریائے نیل پر بنا رہا ہے۔مصر کو تشویش ہے کہ اس ایتھوپیائی ڈیم سے دریائے نیل میں پانی گھٹ جائے گا جس سے مصری زراعت شدید متاثر ہو گی۔ دوسری طرف ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد نے خبردار کیا "کوئی طاقت ایتھوپیا کو ڈیم بنانے سے نہیں روک سکتی۔ اگر جنگ کی ضرورت پڑی تو ہم لاکھوں لوگ تیار کرسکتے ہیں۔"
مصر ڈیم کو ایک زبردست خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ دونوں ممالک کو پانی کی قلت کے خطرے کا سامنا ہے کیونکہ بڑھتی آبادی و شہری کاری اور اقتصادی ترقی کے حصول کے ساتھ پانی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ پانی کے حقوق پر بنیادی اختلافات کے نتیجے میں تناومزید بدتر ہو جاتا ہے۔ مصر تاریخی عمل کی بنیاد پر نیل کے پانی اور ایتھوپیا جغرافیہ کی بنیاد پرپانی پر اپنے حقوق کا دعویٰ کرتا ہے۔نیل کا 85 فیصد پانی ایتھوپیا کے پہاڑی علاقوں سے آتا ہے۔
تازہ پانی کے لیے مقابلہ
گزشتہ 25 سال کے دوران کئی دانشوروں، سیاست دانوں، ماہرین تعلیم اور صحافیوں نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پانی پر تنازعات مستقبل میں جنگوں کی وجہ بن جائیں گے۔ مصری سابق وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل، بطروس بطروس غالی نے پیشین گوئی کی تھی: "مشرق وسطی میں اگلی جنگ پانی پر لڑی جائے گی، سیاست پر نہیں۔‘‘ اقوام متحدہ میں ان کے جانشین، کوفی عنان نے 2001ء میں کہا تھا: "مستقبل میں تازہ پانی کے لیے شدید مقابلہ تنازعات اور جنگوں کا باعث بن سکتا ہے۔" اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے "مشرق وسطیٰ میں مستقبل کی جنگیں تیل سے زیادہ پانی پر لڑی جائیں گی۔‘‘
آبی جنگ کے نظریے کی جڑیں اس سے ابتدائی تحقیق میں پیوست ہیں جو سندھ، اردن اور نیل جیسے سرحدی دریاوں کی چھوٹی سی تعداد پر کی گئی۔ یہ خاص دریا توجہ کا مرکز بن گئے کیونکہ انہوں نے پانی سے متعلق تنازعات کا تجربہ کیا تھا۔مثال کے طور بھارت اور پاکستان کے درمیان آزادی کے تقریباً آٹھ ماہ بعد اپریل 1984 ء میں دریائے سندھ کے پانیوں کی تقسیم پر تنازع پیدا ہوا تھا۔ تب بھارتی ریاست مشرقی پنجاب کی حکومت نے اپر باری دوآب کینال کی مرکزی شاخوں کے ساتھ ساتھ فیروز پور ہیڈ ورکس سے دیپالپور کینال کے ذریعے پاکستان کے مغربی پنجاب صوبے کو جانے والا پانی بند کر دیا۔ اسے پانچ ہفتوں بعد دوبارہ شروع کیا گیا جب پاکستان نے ایک معاہدے پر بات چیت کے لیے انٹر ڈومینین کانفرنس میں شرکت پر رضامندی ظاہر کی۔ بھارتی کارروائی کی نازک نوعیت نے پاکستان میں گہرے خدشات کو جنم دیا جو بالآخر 1960ء میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کے بعد کسی حد تک کافور ہوئے۔
خشک سالی کا خطرہ
آبی تنازعات جنم لینے کے خطرات بڑھانے والا ایک اہم عنصر پانی کی کمی والے خطوں میں یہ قدرتی مائع پانے کے لیے بڑھتا ہوا مقابلہ ہے۔ سیلاب اور خشک سالی جیسے قدرتی واقعات بھی پانی کے تنازعات جنم لینے کے خطرات بڑھا رہے ہیں۔ جیسے جیسے آبادی اور اقتصادی ترقی میں اضافہ ہو، پانی کی طلب بھی بڑھتی ہے۔ کچھ خطوں یا ممالک میں خاص طور پر خشک سالی کے دوران یا مشترکہ بین الاقوامی واٹرشیڈز میں محدود پانی کی تقسیم اور کنٹرول پر اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر پھیلے آبی وسائل اگرچہ جنگ سے زیادہ تعاون سے شئیر کیے جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں کام کرتے سائنسدان پانی کی جنگ کی پیشین گوئیوں کے پیچھے شواہد کی چھان بین کر رہے ہیں۔ ان کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ سچ ہے ،مٹھی بھر بین الاقوامی طاسوں میں پانی سے متعلق تنازعات چل رہے ہیں ، باقی دنیا کے تقریباً 300مشترکہ طاسوںمیں یہ ریکارڈ بڑی حد تک مثبت رہا ہے۔ اس کی مثال سینکڑوں معاہدوں سے ملتی ہے جو پانی کے وسائل بانٹنے والی اقوام کے درمیان پانی کے مساوی استعمال کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان معاہدوں کے ذریعے بننے والے ادارے درحقیقت تنازعات کے بجائے تعاون کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ممکن ہے، سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا سیاسی شعبدہ بازی ہو مگر بھارت کاحکمران طبقہ پاکستان کے لیے بتدریج زیادہ خطرناک بن رہا ہے۔اس گھمبیرصورت حال میں ضروری ہو گیا ہے کہ ملک میں اتحاد ویک جہتی کو فروغ دیا جائے۔اگر کوئی قوم تقسیم ہو تو چاہے جتنی طاقتور سپاہ رکھے، اسے شکست ہو سکتی ہے۔وقت آ گیا ہے کہ ہم سب باہمی اختلافات اور ذاتی مفادات پس پشت ڈال دیں۔ قائدؒکے فرمان’’ اتحاد،ایمان اور تنظیم‘‘ کو حرزِجاں بنائیں اور وطن عزیز کی سلامتی،استحکام،دفاع اور ترقی کے لیے تن من دھن سے کوشاں ہو جائیں۔