لفظوں کے جادوگر، احساسات کا مترجم اور نغمگی سے لبریز لہجہ رکھنے والے نامور شاعر، ادیب اور صحافی ریاض الرحمان ساغر کو دنیا سے رخصت ہوئے 12 برس بیت گئے، مگر ان کے تخلیق کردہ گیت آج بھی سننے والوں کے دلوں کو چھو لیتے ہیں۔
یکم دسمبر 1941 کو بھارتی شہر بھٹنڈا میں پیدا ہونے والے ریاض ساغر ہجرت کے بعد ملتان اور پھر لاہور آگئے۔ لاہور ہی وہ سرزمین ثابت ہوا جہاں انہوں نے بطور صحافی عملی زندگی کا آغاز کیا اور پھر قلم کو گیتوں کی زباں دے دی۔
ریاض الرحان ساغر نے 75 کے قریب فلموں کی کہانیاں تحریر کیں۔ فلم ’’سماج‘‘ کے گیت نے انہیں غیر معمولی شہرت بخشی اور پھر ان کا تخلیقی سفر کسی دریا کی روانی بن گیا۔
ان کے نغمے مہدی حسن، نورجہاں، ناہید اختر، نصیبو لعل، عدنان سمیع اور آشا بھوسلے اور نصرت فتح علی خان جیسے لیجنڈری گلوکاروں نے گائے۔
ریاض ساغر کی شاعری صرف محبت کی ترجمان نہ تھی، بلکہ اس میں درد، جدائی، خواب، مٹی اور ملت کی مہک بھی تھی۔
روحانی کیفیت سے سرشار ان کے کلام نے دلوں کو سکون عطا کیا تو وہیں ان کا لکھا کشمیر پر گیت ’’جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم‘‘ آج بھی مقبوضہ وادی کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔
ریاض الرحمان ساغر نے تین ہزار سے زائد گیت، غزلیں، ملی نغمے اور نعتیہ کلام تحریر کیے۔ فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی دنیا ان کے تخلیقی رنگوں سے سجی رہی۔
ریاض الرحمن ساغر کو فنی خدمات کے اعتراف میں نیشنل فلم ایوارڈ، پی ٹی وی ایوارڈ، نگار ایوارڈ، بولان ایوارڈ اور کلچرل گریجوایٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈز ان کی فنی عظمت کا اعتراف ہیں۔
ریاض الرحمان ساغر یکم جون 2013 کو 72 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، لیکن ان کی شاعری اور ان کے گیتوں کی خوشبو وقت کی دھند میں آج بھی محسوس ہوتی ہے۔