ججوں کے تبادلے میں 3 چیف جسٹس شریک رہے، ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی، جج آئینی بینچ

سپریم کورٹ میں ججز سینارٹی اور ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت 16 جون صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی



سپریم کورٹ میں ججز سینارٹی اور ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت  کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت کے سامنے آئینی و قانونی نقطہ کی تشریح کا معاملہ ہے،تبادلہ کے معاملے میں تین چیف جسٹسز شریک رہے،ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی،تبادلہ پر جج سے رضامندی بھی لی جا تی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے جواب الجواب دلائل میں کہا ایسا نہیں ہونا چاہیے ایک جج سولہویں نمبر سے آکر دوسری ہائیکورٹ میں سینئر ترین جج بن جائے اور اُس کا نام سپریم کورٹ کیلئے بطور جج زیر غور آئے جبکہ اُس کے سینئراستادججز پیچھے رہ جائیں گے،شفافیت ہونی چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا لاہور ہائیکورٹ کے ججز کی طرف سے ایسا کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا، آپ اسلام آباد ہائی کورٹ کی حد تک ہی بات کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کی ۔جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر صلاح الدین نے کہا جج کے تبادلہ سے سیٹ خالی نہیں ہو سکتی، جج کے مستقل ٹرانسفر سے آرٹیکل 175اے غیر موثر ہو جائیگا،ماضی میں کسی جج کی ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں مستقل ٹرانسفر کی کوئی مثالی نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا موجودہ ججز ٹرانسفرز کیس اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا آرٹیکل 200 کے تحت صرف عبوری ٹرانسفر ہو سکتا ہے،مستقل تقرری صرف جوڈیشل کمیشن کر سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آرٹیکل 175 اے کے تحت نئی تقرری ہو سکتی ہے،نئی تقرری اور تبادلہ کے معنی الگ الگ ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا جج ٹرانسفر کیلئے با معنی مشاورت ہونی چاہیے،با معنی مشاورت کے بغیر تبادلہ کا سارا عمل محض دکھاوا ہے،یہاں معلومات کو چھپایا گیا اور غلط معلومات دی گئی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا عدالت کے سامنے آئینی و قانونی نقطہ کی تشریح کا معاملہ ہے،تبادلہ کے معاملے میں تین چیف جسٹسز شریک رہے،ہر چیز ایگزیکٹو کے ہاتھ میں نہیں تھی،تبادلہ پر جج سے رضامندی بھی لی جا تی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا سول سروس رولز کے تحت جب ایک ہی دن دو افراد بھرتی ہوں تو سینارٹی کا تعین تاریخ پیدائش سے متعلق ہوگا، یہ اصول سپریم کورٹ بھی ایک ریفرنس میں طے کر چکی ہے، اسلم اعوان کیس میں بھی کہا گیا سینارٹی کیلئے رولز بننے چاہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ پرنسپل طے کرے، پھر رولز بھی بن جائیں گے۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا سپریم کورٹ سرول سرونٹ رولز، ماضی کی مثالوں، برابری کے اصول کے تحت فیصلہ کرے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے یہ کیس اتنا آسان نہیں ہے، ایک مستقل ٹرانسفر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک عارضی ٹرانسفر ہے،اگر ایک جج نیا حلف لے گا تو اسکی پچھلی سروس کہاں جائے گی، بھارت میں ایک ٹرانسفر ہونے والا جج بیشک پانچ حلف لے اسکی طے شدہ سینارٹی متاثر نہیں ہوتی،پاکستان میں آل پاکستان کیڈر نہیں ہے، ایک جج ایک ہائیکورٹ میں دس سال سروس کرے تو ٹرانسفر ہونے کے بعد اسکی دس سال کی پنشن اور مراعات ختم نہیں ہوتیں، ہم سوالات اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ہمیں معاونت دی جائے، فیصلہ بھی لکھنا ہے، جب ایک جج ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آتا ہے، اسکے آخری پے سرٹیفکیٹ میں گیارہ یا بارہ سال کی سروس لکھی ہوتی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا مراعات اور پنشن ملے گی لیکن سینارٹی نئی ہوگی،جو جج ٹرانسفر ہو کر آیا،وہ ہائی کورٹ جہاں پہلے سے موجود ججز متاثر ہوئے اسکو بھی عدالت نے مدنظر رکھنا ہے،جس ہائیکورٹ سے ایک جج ٹرانسفر ہوکر دوسری ہائیکورٹ آئے، وہاں سینئر جج بن جائے تو ٹرانسفری جج کے سینئر استاد ججز کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے ایک جج سولہویں نمبر سے آکر دوسری ہائیکورٹ میں سینئر ترین جج بن جائے اور اس سے سینئر ججز پیچھے رہ جائیں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا لاہور ہائیکورٹ کے ججز کی طرف سے ایسا کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا، آپ اسلام آباد ہائی کورٹ کی حد تک ہی بات کریں،اگر 16 جون کو کیس پر سماعت مکمل ہوئی تو اسی دن ججز سے مشاورت کے بعد شارٹ آرڈر دے دیں گے۔

بیرسٹر صلاح الدین خان نے کہا کل تک کیس کی سماعت کر دیں۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کل بنچ میں موجود کچھ ججز دستیاب نہیں ہیں۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا جواب الجواب دلائل میں سوالات بھی آجاتے ہیں۔کیس کی سماعت سولہ جون صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

OSZAR »