نئے جدید تعلیمی زاویے

دنیا بھر کی جامعات سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحران میں اس کے حل میں علمی و فکری بنیادوں پر کردار ادا کرتی ہیں


سلمان عابد May 16, 2025
[email protected]

پاکستان میں اعلی تعلیم یا تعلیمی معیارات کے تناظر میںبہت سے مسائل کا سامنا ہے۔اصل مسئلہ ان مسائل سے نمٹنے کے چیلنج کا ہے اور ان مسائل کا حل ہائرایجوکیشن سے جڑے تعلیمی ماہرین اور فیصلہ ساز افراد اور اداروں کا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں ایسے فیصلوں کو یقینی بنائیں جو تعلیمی معیارات اور جددیت پر مبنی تعلیم کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔

اس وقت دنیا میں اعلیٰ تعلیم کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور پرانے خیالات یا فکر یا نصاب کے مقابلے میں جدیدیت کی بنیاد پر بہت کچھ تبدیل ہورہا ہے۔ہمیں بھی پرانے خیالات اور فکر کے مقابلے میں نئی تبدیلیوں کے ساتھ خود کو جوڑنا بھی ہے اور ان سے سیکھ کر آگے بھی بڑھنا ہے۔کیونکہ روائتی طرز کی تعلیم اب بہت پیچھے چلی گئی ہے اور اس کے مقابلے میں جدید تصورات اہمیت حاصل کرگئے ہیں۔

 ایک معروف تعلیمی ماہر ، دانشور اور لاہور کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرجو آج کل ایک نجی یونیورسٹی میں اہم عہدے پر موجود ہیں،انھوں نے حا ل ہی میں ایک کانفرنس میں اسی اہم موضوع پر ایک فکری نشست کا اہتمام کیا۔ اس نشست میں کئی جامعات کے سربراہاں سمیت کئی ماہرین شامل تھے۔ بنیادی سوال یہ ہی ہے کہ کیا ہم اپنی جامعات کے نظام میں بنیادی نوعیت کی اہم تبدیلیوں کے حامی ہیں اور اگر ہیں تو اب تک ایسی کیا اصلاحات ، پالیسی سازی یا قانون سازی کی گئی ہیں جو اعلی تعلیم کی سنجیدگی کو نمایاں کرتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم اپنی اعلی تعلیم میں طالب علم اور استاد کو بنیاد بنا کر کوئی ایسا فریم ورک بناسکے ہیں جو ہماری آج کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔  اسی طرح جو جامعات اور صنعت یعنی انڈسٹری کے درمیان خلیج ہے اسے ہم نے کس حد تک کم کیا ہے ۔ اسی طرح جامعات ، اعلیٰ تعلیم اور صنعت کے درمیان جو باہمی رابطہ، ایک دوسرے کی ضرورتوں کو سمجھنااور اسے ایک دوسرے کے لیے قابل قبول بنانا، تعلیم اور مہارتوں یعنی سکلز کے درمیان باہمی تعلق کو مضبوط کرنے میں کیا کچھ ہورہا ہے۔یہاں تو انڈسٹری جامعات اور جامعات انڈسٹری سے نالاں نظر آتی ہیں۔

دنیا بھر کی جامعات سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحران میں اس کے حل میں علمی و فکری بنیادوں پر کردار ادا کرتی ہیں۔ یہی جامعات کی اہم ذمے داری بنتی ہے۔ لیکن یہاں سرکاری ڈھانچے اور جامعات کے درمیان ایک بڑی خلیج دیکھنے کو ملتی ہے۔ سرکاری نظام ایک طرف اور تعلیمی ماہرین کا نظام دوسری طرف کھڑا ہے۔

یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ آج ہمارا بچہ یا بچی اعلی تعلیم کے نظام میں سیاسی طور پر تنہا کھڑا ہے اور اس کی جددیت اور دنیا میں ہونے والی تبدیلی میںراہنمائی کرنے لیے کوئی تیار ہی نہیں ہے۔ایک طرف اس کا داخلی محاذ ہے تو دوسری طرف اسے بہت کچھ سیکھنے کے لیے گلوبل محاذ پرسیکھنا ہے۔کیونکہ اب بچہ اوربچی گلوبل دنیا سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کو ہم نے محض داخلی ضرورت کے تحت ہی نہیں بلکہ گلوبل دنیا کے ساتھ اس کو جوڑنا بھی ہے تاکہ وہ گلوبل دنیامیں موجود مواقعوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی ترقی کے لیے نئے امکانات پیدا کرسکے۔

مکالمہ ، بات چیت اور ان میں مختلف نظریات پر مشتمل بچوں اور بچیوں میں ایک دوسرے کی قبولیت، رواداری اور سماجی اہم اہنگی کو پیدا کرنا ،قومی و عالمی مسائل سے آگاہی،تنقیدی نقطہ نظر اور جائزہ کی تربیت ،غیر نصابی سرگرمیاں اور فعالیت پر مبنی اسٹوڈنٹس سوسائٹیوں کی تشکیل، بچوں اور بچیوں کی نفسیاتی تربیت،شعور کی آگاہی ،سوک ایجوکیشن پر مبنی تربیت،بچوں اور بچیوں کے لیے مختلف نوعیت پر مبنی تربیتی ورکشاپس،انڈسڑی سمیت دیگر اہم اداروں کے وزٹ،فعال انٹرنشپ پروگرام،بول چال کی مہارتیں ، پریزنٹیشنز کی تربیت،تنازعات سے نمٹنے کی صلاحیت،ٹیم ورک، سماجی اور پروفیشنل تعلقات بنانے کا ہنر،تجزیاتی پہلو،ڈیجیٹل مہارتیں، غیر نصابی کتب کا مطالعہ،انتہا پسند رجحانات اور پرتشدد خیالات کے خاتمہ کو بنیاد بنا کر نئی نسل کو تیار کرنا وقت کی اہم ضرورت بنتی ہے۔

اسی طرح جس برے انداز سے ہم اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کمی کررہے ہیں یا مالیاتی طورپر تعلیم اور تحقیق میں سرمایہ کاری کا نہ ہونا یا حکومتی عدم ترجیحات سے جڑے مسائل بھی تعلیم کی ترقی میں اہم نقطہ ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلسل بجٹ میں کمی ظاہر کرتی ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں کہاں کھڑے ہیں،اسی طرح تعلیم و تحقیق کے لیے فکری آزادانہ ماحول اور متبادل نقطہ نظر کو اہمیت دینا یا ان کی قبولیت سمیت تعلیم کی ترقی میں سازگار ماحول کی فراہمی اہم نکات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔لیکن یہ کام اس وقت تک ممکن نہیںجب تک ہم ہائر ایجوکیشن اور جامعات کی خود مختاری کے اصول کو اختیار نہیں کریںگے۔جب ہم نے 18ویں ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری کے اصول کو اختیار کرلیا ہے تو اس کی عملی شکل نظر بھی آنی چاہیے۔

اعلی تعلیم سے جڑے فیصلے جب بیوروکریسی کے مقابلے میں جامعات اور ماہرین تعلیم کریں گے تو ہم مثبت تبدیلی کا پہلو بھی دیکھ سکیں گے۔ نئی تحقیق اور نئے علم کے تناظر میںجو ہمیں قومی سطح پر اپنی تیاری میں روڈ میپ درکار ہے اس کو سامنے آنا چاہیے اور یہ روڈ میپ تمام فریقوں کی باہمی مشاورت سے بننا چاہیے۔

اگر ہم نے گریز کی پالیسی جاری رکھی تو پہلے سے موجود ہا نظام میں اور زیادہ خرابیاں جنم لیں گی۔یہ خرابیاں ہماری تعلیمی اداروں سمیت تعلیمی معیارات کی درجہ بندی کو متاثر کرکے ہماری تصویرکو مزید خراب کرے گی۔اس لیے اب ہمارے پاس غلطیوں کی گنجائش کم ہے اور ہمیں حقیقی طور پر اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔وگرنہ جس انداز میں اس ملک میں اعلی تعلیم یا تعلیمی معیارات کی اہمیت کم ہورہی ہے وہ ایک سنجیدہ پہلو ہے جس پر ہمارے ماہرین اور اہل دانش کو بہت کچھ سوچنا ہوگا۔کیونکہ روائتی طرز فکر اپنی اہمیت کو عملا کھوبیٹھا ہے اوراس فرسودہ اور روائتی فکر کے ساتھ دنیا میں موجود اعلی تعلیم اور مہارتوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکے گا۔مگر کیا ہم بطور ریاست ،حکومت اور تعلیمی ادارے کے سربراہان کے طورپر ان موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں یا ہم میںان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے اس پر غوروفکر ہوناچاہیے تاکہ ہم بہتری کی طرف بڑھ سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

OSZAR »