یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ میں اطلاعاتی نظام کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے میں نے ذاتی طور پر گلف وار، صومالیہ سول وار اور امریکا عراق جنگ کی میدان جنگ سے براہ راست رپورٹنگ کی ہے اور بخوبی آگاہ ہوں کہ جنگ کے دوران حقائق کو کیسے ہینڈؒل کیا جاتا ہے۔ پاک بھارت حالیہ چار روزہ جنگ میں میڈیا کے کردار کے حوالے سے تجزیات سامنے آرہے ہیں۔
اس حوالے سے میرے ایک دوست نے ایک ایسی تحریر مجھے ارسال کی ہے جو بھارتی میڈیا کے کردار کو کھل کر نمایاں کرتی ہے۔ یہ تحریر ایک ایسے فرد نے لکھی ہے جو بھارت میں مقامی چینلز کے ساتھ دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا کی دو دھاری تلوار نے اس بار بھارت کو ہی کاٹ کر رکھ دیا۔ صاحب مضمون لکھتے ہیں کہ ’’میں پچھے تیس برس سے بھارت میں میڈیا کا حصہ رہا ہوں۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارتی ٹی وی اسکرینوں اور میڈیا ویب سائٹس نے اس جنگ کے دوران قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر سفید جھوٹ کے جو دریا بہائے اس سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں، اب اس میڈیا کے ساتھ وابستگی کا حوالہ دینا ہی سبکی جیسا لگتا ہے۔حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران جب بھارتی ٹی وی کے اینکرز چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ کراچی کو تباہ کر دیا گیا ہے تو میں نے پہلے کچھ زیادہ سیریس نہیں لیا مگر جب ایک معروف بھارتی خاتون ٹی وی اینکر جس کو پاکستان کے مخصوص صحافتی حلقوں میں معتبر صحافی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، نے بھی ٹوئٹ کرکے یہی خبر دی تو میں نے اپنے ایک سابق کولیگ، جو اب کراچی شفٹ ہوگئے ہیں، کو فون کیا۔
وہ فون اٹھا نہیں رہے تھے تو یقین آگیا کہ شاید کراچی واقعی ختم ہو گیا ہے مگر چند ساعت کے بعد ان کا خود ہی فون آیا اور معذرت کی کہ وہ اس وقت نہاری لینے کے لیے ایک ریسٹورنٹ کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ میں نے پھر ہندوستانی میڈیا کی چند ہیڈلائنز دیکھیں۔ جس میں نیوز اینکرز گلہ پھاڑ کر بتا رہے تھے کہ کراچی اور اسلام آباد پر حملے کی خبریں دے رہے تھے۔ جس وقت یہ خبر چلائی گئی تو پینل پر موجود خود ساختہ جوکرتجزیہ نگار خوشی سے ڈانس کرنے لگے۔ ایک اور مشہور بھارتی نجی ٹی وی نے تو حد ہی کر دی۔
کراچی پورٹ پر فرضی حملے کی وڈیو اسٹوڈیو میں ہی تیار کر کے ایسے نشر کی جیسے یہ حقیقی مناظر ہوں۔ بھارت کے انگریزی چینل نے لاہور اور کراچی پر بیک وقت حملے کا دعویٰ کر دیا۔ایک اور بھارتی ٹی وی چینل نے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ پاکستان کے 25 شہر تباہ کر دیے گئے ہیں۔ غلط انفارمیشنز کے علاوہ ٹی وی اینکرز کی گندی زبان اور گالی گلوچ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بھارتی نیوز میڈیا کا یہ پروپیگنڈا کوئی انٹرنیٹ ٹرولنگ نہیں بلکہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلارہے تھے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے بھی ’’کارگل جنگ‘‘ کے برعکس اس با ر دہلی میں کوئی تفصیلی بریفنگ نہیں دی گئی۔ جونیئر افسران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویمکا سنگھ کو میڈیا کو بریفنگ کی ذمے داری دی گئی۔ اس کے برعکس پاکستان نے ایئر فورس کے سینئر افسر، ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جنھوں نے نقشے کے ذریعے ایک تفصیلی بریفنگ دی۔
پاکستانی بریفنگ کا انداز انتہائی پروفیشنل تھا۔ انھوں نے صبر و تحمل سے بتایا کہ آپریشن سندور کے آغاز سے قبل ہی پاکستانی فضائیہ نے الیکٹرانک طریقے سے ہندوستانی طیاروں کی شناخت کرلی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فضائی حکمت عملی اب روایتی فضائی جھڑپوں تک محدود نہیں بلکہ اب وہ ایک ’’کثیر الجہتی جنگی حکمت عملی‘‘ پر مبنی ہے۔ یہ بات سب ہی صحافی جانتے ہیں کہ جب تفصیل سے بریفنگ دی جائے تو میڈیا بھی اسی بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
پاکستان نے چونکہ سینئر افسران کو میدان میں اتارا، اس لیے گزشتہ روز بین الاقوامی اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر پاکستانی مؤقف چھایا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کی طرف سے کسی سینئر آرمی اورفضائی افسر نے میڈیا سے بات نہیں کی۔ جب اس غلطی کا اندازہ ہوگیا، تب تک دیر ہو چکی تھی۔ اس ابلاغی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بین الاقوامی میڈیا کو پاکستانی مؤقف کا اعتبار حاصل ہوا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ تعلیمی اداروں میں صحافتی تعلیم کے مضامین ہوں یا ابلاغی اداروں میں تربیتی ورکشاپس، صحافیوں کو ’’گلوبل ولیج‘‘ کے اس دور میں کنفلکٹ رپورٹنگ (Conflict Reporting)، ڈزاسٹر رپورٹنگ( Desister Reporting) اور وار رپورٹنگ (War Reporting) کی تعلیم اور تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے ۔